واجب ہے ۔۔۔۔ اکشر
جب تک جان میں ہے جان واجب ہے
بھلائی انسان کی اے انسان واجب ہے
بھلا چاہنا منش
ماتر کا ، اے انساں واجب ہے
کسی کی تو نہ کر ہانی نہیں نقصان واجب ہے
وہ ہندو ہو یا مسلمان ہو یہودی ہو یا عیسائی
برہمو آریہ سکھ کا
اچت سنمان واجب ہے
وہ رومی ہو یا روسی
ہو وہ چینی ہو یا
جاپانی
فرنگی ایشیائی ہو یا افریکی یا امریکی
کہیں کا ہو کوئی بھی ہو اچیت احسان واجب ہے
نسل اور رنگ کے کارن نہیں اپمان واجب ہے
غلط جاتا ہو گر کوئی دھرم مارگ سے بھولا ہو
محبت سے اسے دینا دھرم کا گیان واجب ہے
کسی مت بھید کو لیکر کدورت نفرت و نخوت
تعصب تنگدلی کینا نہیں نقصان واجب ہے
منش ماتر کے رشتوں میں جو سد سکھیا دی ستگر نے
دیئے آدیش جو ہتکر پالنا ان کا واجب ہے
آشا جو جهاز
ڀاون سنگهه جي تلريجا (1983)
No comments:
Post a Comment